جَزاءُ الصَّبرِ في وَقتِ الجُوعِ
كانَ هُناكَ فَقيرَانِ خُراسانيّانِ يُسافِرانِ مَعًا. أَحدُهُما كانَ شيخًا طاعنًا في السِّنِّ يَأكُلُ في كُلِّ يَومَينِ مَرَّةً، وَالثّاني شابٌّ قويٌّ، يَأكُلُ ثلاثَ مَرّاتٍ في اليومِ.
اتَّفَقا أَن يَذهَبا إلى مدينةٍ، فَقُبِضَ عَلَيهِما بِتُهمَةِ التّجَسُّسِ، وَأَمَرَ الحاكِمُ بِسَجنِهِما في غُرفَةٍ وَسَدَّ بابَها بِالطّوبِ.
بَعدَ أُسبوعَينِ، تَبَيَّنَ أَنَّهُما كانا بريئَينِ، فَأَمَرَ الحاكِمُ بِفَتحِ البابِ. وَلَكِن عندَ فَتحِ الجِدارِ، تَعَجَّبَ النّاسُ لِما رَأَوا: الشّابُّ القَويُّ كانَ مَيِّتًا، أَمّا الشَّيخُ فَكانَ ما زالَ حَيًّا!
مَرَّ حَكِيمٌ بِالمَكانِ، وَلَمّا رَأى تَعَجُّبَ النّاسِ، قالَ: لَو عاشَ الشّابُّ وَماتَ الشَّيخُ، لَكَانَ فِي الأَمرِ عَجَبٌ! لِأَنَّ الشّابَّ يَأكُلُ كَثيرًا، وَلا يَقدِرُ أَن يَصبِرَ عَلَى الجُوعِ، فَماتَ. أَمّا الشَّيخُ، فَكانَ قَلِيلَ الأَكلِ، وَصَبَرَ كَما يَفعَلُ دائِمًا، فَبَقِيَ حَيًّا.
الْعِبْرَةُ مِنَ الْقِصَّةِ:
القُوَّةُ الحَقِيقِيَّةُ لَيسَتْ فِي الشَّبابِ أَوِ الجَسَدِ، بَلْ فِي الصَّبرِ وَالقَناعَةِ وَكَبحِ النَّفسِ. مَن يَعرِفُ كَيفَ يُسَيطِرُ عَلَى شَهواتِهِ، يَستَطِيعُ أَن يَعيشَ حَتَّى فِي أَصعَبِ الظُّروفِ. تَعلِّمُنا هَذِهِ الحِكايةُ أَنَّ الصَّبرَ وَالاعتِدالَ هُما أَعظَمُ الثَّرْوَاتِ فِي الحَياةِ.
مذکورہ عربی مضمون(بھوک میں صبر کا انعام) کا اردو ترجمہ:
بوڑھا اور جوان دو خراسانی فقیر اکٹھے سفر کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک تو بوڑھا تھا جو دوسرے دن کھاتا اور دوسرا موٹا کڑیل جوان جو دن میں تین بار کھاتا۔
یہ دونوں اتفاقا کسی شہر میں جاسوسی کے الزام میں پکڑے گئے اور حاکم کے حکم سے ان کو ایک کوٹھڑی میں بند کر کے دروازے کو اینٹوں سے بند کرا دیا گیا۔ دو ہفتے بعد معلوم ہوا کہ دونوں بے گناہ تھے ۔ اس پر حاکم نے دروازہ تڑوا دیا
مگر دیوار کھلنے پر لوگوں کو یہ واقعہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ موٹا جوان تو مرا پڑا تھا اور ضعیف بوڑھا ابھی تک زندہ و سلامت - اتفاق سے ایک حکیم کا بھی ادھر سے گزر ہوا۔
اس نے لوگوں کو تعجب میں دیکھ کر کہا۔ عزیزو! تعجب تو جب ہوتا کہ بوڑھا مر جاتا اور جوان بچا رہتا۔ جوان بہت کھانے والا تھا بھوک پیاس کیسے سہار سکتا تھا۔ لاچار مر گیا اور بوڑھا کم خور تھا اس نے اپنی عادت کے موافق صبر کیا جس سے اس کی جان بچ گئی۔
پیغام حکایت:
زندگی میں صرف طاقت یا جوانی نہیں، بلکہ صبر، قناعت اور خود پر قابو رکھنا اصل طاقت ہے۔ جو شخص اپنی خواہشات پر قابو پانا جانتا ہے، وہ سخت سے سخت حالات میں بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ اس حکایت سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ صبر اور اعتدال زندگی کی سب سے بڑی دولت ہیں۔
Tags:
عربى کہانیاں