MrJazsohanisharma

عاقبة الطمع

عَاقِبَةُ الطَّمَعِ

خَرَجَ أَخَوَانِ فِي سَفَرٍ، وَفِي الطَّرِيقِ ٱسْتَرَاحَا تَحْتَ شَجَرَةٍ بِجَانِبِ ٱلطَّرِيقِ. كَانَ هُنَاكَ حَجَرٌ تَحْتَ ٱلشَّجَرَةِ، فَخَرَجَتْ حَيَّةٌ مِنْ تَحْتِ ٱلْحَجَرِ تَحْمِلُ دِينَارًا، وَتَرَكَتْهُ أَمَامَ أَحَدِهِمَا.

فَرِحَا بِٱلدِّينَارِ وَقَالَا: لَعَلَّ هُنَاكَ كَنْزًا مَدْفُونًا! فَبَقِيَا هُنَاكَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، وَكَانَتِ ٱلْحَيَّةُ تَخْرُجُ كُلَّ يَوْمٍ وَتَتْرُكُ دِينَارًا أَمَامَهُمَا.

فِي ٱلْيَوْمِ ٱلرَّابِعِ، قَالَ أَحَدُهُمَا: لِمَاذَا نَنْتَظِرُ دِينَارًا وَاحِدًا كُلَّ يَوْمٍ؟ لِنَقْتُلِ ٱلْحَيَّةَ وَنَأْخُذَ ٱلْكَنْزَ كُلَّهُ! وَلَكِنَّ أَخَاهُ قَالَ: "مَاذَا لَوْ لَمْ يَكُنْ هُنَاكَ كَنْزٌ؟ سَنَخْسَرُ كُلَّ شَيْءٍ!"

وَلَكِنَّ ٱلْأَخَ لَمْ يَسْتَمِعْ، وَأَخَذَ فَأْسًا وَٱنْتَظَرَ ٱلْحَيَّةَ. وَعِنْدَمَا خَرَجَتْ، ضَرَبَهَا وَلَكِنَّهَا لَمْ تَمُتْ، فَلَدَغَتْهُ ٱلْحَيَّةُ فَمَاتَ فَوْرًا.

دَفَنَ ٱلْأَخُ ٱلْآخَرُ أَخَاهُ وَبَقِيَ هُنَاكَ. فِي ٱلْيَوْمِ ٱلتَّالِي، خَرَجَتِ ٱلْحَيَّةُ وَلَكِنْ بِدُونِ دِينَارٍ، وَكَانَ عَلَىٰ رَأْسِهَا ضِمَادٌ. ٱقْتَرَبَ ٱلرَّجُلُ مِنْهَا وَقَالَ:

لَقَدْ مَنَعْتُ أَخِي مِنْ قَتْلِكَ، وَلَمْ أُوَافِقْ عَلَىٰ مَا فَعَلَ، فَهَلْ يُمْكِنُ أَنْ نَعِيشَ فِي سَلَامٍ كَمَا كُنَّا مِنْ قَبْلُ؟ وَلَكِنَّ ٱلْحَيَّةَ رَفَضَتْ وَقَالَتْ: "لَنْ يَنْسَىٰ قَلْبُكَ أَنِّي قَتَلْتُ أَخَاكَ، وَلَنْ يَنْسَىٰ قَلْبِي أَنَّكَ جَرَحْتَنِي!"

ثُمَّ قَرَأَتْ بَيْتًا مِنَ ٱلشِّعْرِ

وَمَا لَقِيَتْ ذَاتُ ٱلصَّفَا مِنْ حَلِيفِهَا
وَكَانَتْ تُرْبُهُ ٱلْمَالَ زَعْبًا وَظَاهِرَهُ

مذکورہ عربی مضمون(لالچ کا برا انجام) کا اردو ترجمہ:

مسعودی بن زبیر بن بکار سے نقل کیا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں دو بھائی سفر کے لیے نکلے اور راستے میں ایک درخت کے سائے میں، جو سڑک کے کنارے تھا، دم لینے کے لیے رکے۔ اس پیڑ کے نیچے ایک پتھر بھی پڑا تھا۔ جب کچھ دیر بعد انہوں نے چلنے کا ارادہ کیا تو اس پتھر کے نیچے سے ایک سانپ ایک دینار لیے ہوئے نکلا اور اس نے وہ دینار ان دونوں بھائیوں میں سے ایک کے سامنے ڈال دیا۔

اس دینار کو پاکر وہ دونوں بھائی آپس میں کہنے لگے کہ ہو نہ ہو، یہاں پر کوئی خزانہ مدفون ہے۔ لہٰذا انہوں نے تین دن تک وہاں قیام کیا اور وہ سانپ روزانہ ایک دینار لا کر ان کے سامنے ڈالتا رہا۔ لیکن چوتھے دن ان بھائیوں میں سے ایک کہنے لگا:

بھائی! ہم کب تک یہاں بیٹھے ہوئے ایک ایک دینار حاصل کرتے رہیں گے؟ کیوں نہ اس سانپ کو مار کر خزانہ نکال لیا جائے؟ لیکن دوسرے بھائی نے اسے منع کیا اور کہا:

اگر اس کے نیچے خزانہ نہ نکلا تو ہماری ساری محنت بیکار ہو جائے گی۔ مگر اس نے اس کی بات نہ مانی اور ایک کلہاڑی لے کر سانپ کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ جیسے ہی سانپ نے پتھر سے سر نکالا، اس نے کلہاڑی سے اس پر وار کر دیا۔ مگر حملہ پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا، اور سانپ صرف زخمی ہوا، مرا نہیں۔ سانپ نے تیزی سے پلٹ کر جوابی حملہ کیا اور کلہاڑی سے حملہ کرنے والے کو ڈس کر ہلاک کر دیا، پھر واپس پتھر کے اندر گھس گیا۔

دوسرے بھائی نے اپنے ہلاک شدہ بھائی کو دفن کر دیا اور وہیں ٹھہرا رہا۔ یہاں تک کہ اگلے دن پھر وہ سانپ نکلا، مگر اس کے منہ میں کوئی دینار نہیں تھا اور اس کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ سانپ نکلتے ہی اس کی طرف بڑھا، مگر اس نے فوراً کہا:

تجھے معلوم ہی ہے کہ میں نے اپنے بھائی کو اس اقدام سے منع کیا تھا، اور تیرے قتل کرنے پر میں اس کا ہم خیال نہیں تھا، مگر اس کم بخت نے میرا کہنا نہ مانا اور تجھ پر حملہ کر بیٹھا، جس کے نتیجے میں اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ان حالات کے تحت کیا یہ ممکن نہیں کہ تو مجھ کو کوئی نقصان نہ پہنچائے اور نہ میں تجھ کو کوئی نقصان پہنچاؤں؟ اور تو اسی طرح مجھ پر مہربان ہو جائے جیسے تو نے چار دن تک ہم پر مہربانی کی تھی؟

لیکن سانپ نے اس کا جواب نفی میں دیا۔ اس شخص نے پوچھا: "انکار کی وجہ کیا ہے؟" سانپ نے جواب دیا: "انکار کی وجہ یہ ہے کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں

کہ تیرا دل میری طرف سے کبھی صاف نہ ہوگا، کیونکہ میں نے تیرے بھائی کو مار ڈالا ہے اور تو اس کی قبر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اور میرا دل بھی تیری طرف صاف نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ میرے سر کا زخم مجھ کو صدمے کی یاد دلاتا رہے گا، جو تیرے بھائی کے ہاتھوں مجھے اٹھانا پڑا۔" پھر اس سانپ نے، جو اصل میں جن تھا، نابغہ جعدی کا یہ شعر پڑھا:

ترجمہ: اور میں نے اپنے حلیف سے کوئی نیک معاملہ نہیں دیکھا، حالانکہ میرا مال اس کی پرورش کرتا تھا اور اس کے ظاہر کا خبر گیر تھا۔ (تاریخ کے سچے واقعات، ص828)

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی