لفظ اللہ کی تحقیق و تعلیل

لفظ اَللّٰه کی تحقیق

لفظ اَللّٰه کی تحقیق: لفظ الله اسمِ جلالت بعض کے نزدیک غیر مشتق ہے اور بعض کے نزدیک مشتق ہے اس لحاظ سے اسم جلالت کے بارے میں تین ٣ اقوال ہیں:

پہلا قول: لفظ اَللّٰه کی اصل إِلَهٌ ہے۔ اس صورت میں یہ مھموز الفاء باب فَتَحَ یَفْتَحُ سے ہوگا عبادت کرنے کے معنی میں

قاعدہ: ہمزہ کو خلاف قیاس حذف کرکے اس کے عوض شروع میں الف لام کا اضافہ کردیا تو یہ اَللّٰه ہوگیا۔

دوسرا قول: لفظ اَللّٰه کی اصل وِلَاہٌ ہے۔ اس صورت میں یہ مثال واوی باب سَمِعَ یَسْمَعُ سے ہوگا حیران ہونے کے معنی میں

قاعدہ: واؤ کو ہمزہ سے بدلا ثقل کی وجہ سے اور الف لام کا اضافہ کیا تو اَللّٰه ہوگیا۔

تیسرا قول: لفظ اَللّٰه کی اصل لَاہٌ ہے۔ اس صورت میں یہ اجوف واوی باب نَصَرَ یَنْصُرُ سے ہوگا چھپ جانے کے معنی میں

قاعدہ: اس کے شروع میں الف لام کا اضافہ کیا تو یہ اَللّٰه ہوگیا

پھر لفظ ’’اللہ‘‘ کے مادے کی تحقیق بھی ایک دقیق اور طوالت طلب معاملہ ہے‘ لیکن تین یہاں وہ تین مفہوم ذکر ہیں جن پر اجماع ہے۔

ایک معنی یہ کہ وہ ہستی جس کی طرف حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے رجوع کیا جائے‘ دوسرہ معنی یہ کہ وہ ہستی جس کے بارے میں عقل حیران و پریشاں ہو کر رہ جائے ‘اور

تیسرہ معنی یہ کہ وہ ہستی جس سے والہانہ محبت ہو. اور اگر ذرا سا غورکیا جائے توصاف نظر آجائے گا کہ عوام الناس کی رسائی اکثر و بیشتر صرف پہلے مفہوم تک ہوتی ہے‘ جبکہ فلاسفہ کا تحیر اور لاادریت دوسرے مفہوم کے مظہر ہیں‘ اور صوفیہ تیسرے اور بلند ترین مفہوم سے سرشار ہوتے ہیں واللہ اعلم!!

[تفسیر بیضاوی شریف صفحہ ٥٩]

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی