اگر کسی کو جادو کا اثر ہو جائے تو کیا کریں

اگر کسی کو جادو ہو جائے تو کیا کریں

یہ ایک اہم موضوع ہے اور اس پر لکھنے کا کافی عرصے سے سوچ رہا ہوں لیکن آج کل کچھ ایسے متنوع کاموں میں پھنسا ہوا ہوں کہ ان کے ساتھ مزید لکھنے کا دل نہیں چاہتا۔ نیز اسے لکھنے میں احتیاط بہت ضروری ہے۔

یہ بات مختلف شہادتوں سے اب تک یقین کی حد کو پہنچ چکی ہے کہ اہل علم اور اہل دین کے ساتھ ساحروں کی کچھ زیادہ ہی محبت ہوتی ہے۔ کچھ اقوام میں باقاعدہ اس بات کی تربیت دی جاتی ہے جس کے بعد وہ اہم اہم شخصیات کو نشانہ بناتے ہیں۔ پہلے یہ چیز نسبتاً کم تھی اور ٹارگٹ مشہور لوگ ہوتے تھے لیکن اب ٹارگٹ ہر کام کا بندہ ہوتا ہے۔ کچھ آسانی ڈیجیٹل تصویر نے بھی کر دی ہے۔

سحر کا یہ معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے جاری ہے اور یہود اس میں خاص متحرک رہے ہیں۔ حضرت کعب احبار یہودی عالم تھے جو مسلمان ہو گئے تھے اور تابعین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ اگر میں کچھ کلمات نہ پڑھا کرتا تو یہود مجھے گدھا بنا دیتے (موطا امام مالک)۔ اس کی تشریح میں بعض حضرات کہتے ہیں کہ سحر سے حقیقتاً گدھا بنانا ممکن تھا اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے عقل پر اثر کرنا مراد ہے۔

سحر کیا ہے اور کیا یہ واقعتاً کسی چیز پر اثر کرتا ہے یا صرف انسانی ذہن کو متاثر کرتا ہے؟ اس پر طویل ابحاث تاریخ کا حصہ ہیں اور مزید ابحاث بھی کی جا سکتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا کا مکمل ماہر شاید ہی کوئی ہو، جتنا آگے جائیں اتنی ہی وسعت ہے۔

میرا خیال یہ ہے کہ اس کی مختلف اقسام ہیں جن میں سے بعض میں صرف نظر بندی یا قوت خیال پر اثر ہوتا ہے اور بعض میں دیگر چیزوں سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ مثلاً ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں ہمیں سیمیا اور طلسمات کا ذکر ملتا ہے۔ سیمیا تو آج کی کیمسٹری تھی جس کا استعمال اس وقت سحر میں ہوتا تھا اور طلسمات کا تعلق مختلف اشیاء کے اثر اور خواص سے تھا۔

یہ چیزیں حقیقی اثر ڈالتی ہیں۔ اسی طرح پانچ مخفی علوم (کیمیا، لیمیا، ہیمیا، سیمیا اور ریمیا) میں بھی ایسی کئی چیزیں ہیں اور ان علوم کی قریب ترین تفصیلات مجھے فارسی میں ملی ہیں۔ اردو اور عربی میں ایسی چیزیں شاید نایاب ہیں۔

جہاں تک بات ہے قوت خیال کی تو قرآن کریم نے حضرت موسی علیہ السلام کے قصے میں واضح طور پر کہا ہے کہ سحر کی وجہ سے ان کے خیال میں یہ دکھائی دے رہا تھا کہ رسیاں دوڑ رہی ہیں۔ اسے قرآن نے سحر عظیم کہا ہے تو اصل غالباً یہ ہے۔ جب انسان کے خیال پر مستقل ایک چیز کا اثر رہتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ بیمار بھی پڑنے لگ جاتا ہے اور دلوں میں پھوٹ بھی پڑ جاتی ہے۔

سحر میں شیاطین سے مدد لی جائے تو وہ بھی وسوسے ڈالتے ہیں۔ مختلف کلام بھی اپنے موکلین (یا شاید ڈارک انرجی) رکھتے ہیں اور ان کا بھی خیال پر اثر ہوتا ہے۔ یہ چیزیں میں نے مختلف لوگوں، کتابوں اور تجارب سے لی ہیں لیکن یہ میرا ڈومین نہیں ہے اس لیے میں اس پر زیادہ گہرائی میں نہیں جاؤں گا۔

ہمارے اکابر اور اسلاف میں تقوی بھی زیادہ تھا، روحانی قوت بھی مضبوط تھی، اعمال بھی کثرت سے ہوتے تھے اور ضروری حد تک وہ حضرات عملیات سے بھی واقف ہوتے تھے۔ چنانچہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر کے بعض تعویذات کا ذکر ملتا ہے۔ خود حضرت ایک سخت اور خشک عالم سمجھے جاتے ہیں جب کہ اس موضوع پر ان کی کتاب "اعمال قرآنی" کے نام سے ہے اور تعویذ دیا بھی کرتے تھے۔ ہم چاروں چیزوں میں ان کے برعکس ہیں۔ نہ تقوی، نہ روحانی قوت، نہ اعمال اور نہ دفاع کے لیے معمولات۔ اوپر سے معاشی و سیاسی پھندوں نے ہمیں مزید جکڑا ہوا ہے۔ اس لیے ہم کافی متاثر ہوتے ہیں اور علم بھی نہیں ہوتا۔

تو پھر کیا کریں ؟

سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ میں اس حوالے سے کسی عامل کے پاس جانے کا مشورہ ہرگز نہیں دوں گا۔ عاملین کے کھاتے بھی اکثر خراب ہوتے ہیں اور اپنی کمائی کے لیے وہ خود ہی بہت کچھ کر لیتے ہیں۔بہتر یہ ہے کہ گناہوں سے بچا جائے، نیک اعمال کیے جائیں اور صبح و شام کے معمولات کا اہتمام کیا جائے۔ اگر مزید مسئلہ ہو تو کسی اللہ والے سے خود پڑھنے کی چیزیں لے لی جائیں۔

ان سے آسانی ہو جاتی ہے۔ نیز دو چیزوں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ اول: اپنی قوت ارادی اور قوت خیال کو بڑھایا جائے، دم کرنے میں اس کا بھی کافی اثر ہوتا ہے۔ اور دوم: جس حد تک ممکن ہو تہجد اور قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کیا جائے۔ ان کا نور ہر چیز پر بھاری پڑتا ہے۔

[تحریر: مفتی محمد اویس پراچہ]

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی